امریکی قانون ساز نمائندوں نے کانگریس میں ایک قرارداد پیش کیا ہے جس میں
صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ذریعہ سعودی عرب کو اسلحہ کی فروخت کے خطیر رقم کے
معاہدے کے کم از کم ایک حصے میں ترمیم کی تجویز کی گئی ہے۔ سنیٹ میں
ریپبلکن رکن رانڈ پاؤل اور ڈیموکریٹس کرائس مورفی اور الفرینکین نے عدم
موافقت کی قراداد پیش کی ہے، جس میں یہ تجویز کی گئی ہے کہ سعودی عرب کو
اسلحہ کی فروخت کے معاہدے کے کم از کم ایک حصے کو روکا جائے یا نہیں، اس پر
ووٹنگ کرائی جائے۔
سنیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کو اسلحہ فروخت کے معاہدے کا رسمی نوٹس 19 مئی
کو موصول ہوچکا ہے۔ امریکی قانون میں اسلحہ برآمدات کنٹرول ایکٹ 1976 کے
تحت سنیٹر کو کسی بھی اسلحہ فروخت کے معاہدے پر ووٹنگ کرانے کی تجویز لانے
کا حق ہے۔اسی لئے امریکی باضابطہ منظوری کے نوٹیفکیشن کے بعد مذکورہ
سنیٹروں نے سعودی عرب کو اسلحہ کی فروخت کے خطیر رقم کے معاہدے میں جزوی
ترمیم کی قرارداد پیش کی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ انہی تینوں سنیٹروں نے گزشتہ
سال بھی سعودی عرب کو 1.15 کروڑ ڈالر کے اسلحہ فروخت کے
معاہدے کو ختم کرنے
کے لئے قرارداد پیش کیا تھا۔ تاہم، اس وقت انہيں شکست کا سامنا کرنا پڑا
تھا۔
واضح رہے کہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے اولین بیرونی دورے کا پہلا مرحلہ سعودی عرب
کا دورہ تھا، جس دوران انہوں نے ریاض میں 20 مئی کو سعودی عرب کے ساتھ 110
کروڑ ڈالر کی خطیر رقم کے معاہدے کا اعلان کیا تھا، جس میں سعودی عرب نے
آئندہ 10 برسوں میں 350 کروڑ ڈالر کے اسلحہ حاصل کرنے کے متبادل پر اتفاق
کیا تھا۔ مذکورہ سنیٹروں نے اس معاہدے میں 50 کروڑ ڈالر کے سیکشن کو ختم
کرنے کے لئے قرارداد پیش کیا ہے، جس میں خطرناک حملے کے ہتھیار خریدنے پر
اتفاق کیا گيا تھا۔
سنیٹر رانڈ پاؤل نے گزشتہ روز ایک بیان میں کہا کہ " ماضی میں سعودی عرب کی
طرف سے دہشت گردی کی معاونت، حقوق انسانی کا خراب ریکارڈ اور یمن کی خانہ
جنگی میں سعودی عرب کی مشکوک چال کی وجہ سے کانگریس کو ڈونالڈ ٹرمپ کے
ذریعہ کئے گئے اسلحہ معاہدے پر سنجیدگی سے غور وخوض کرنا لازم ہے اور یہ
بحث کرنا ضروری ہے کہ سعودی عرب کو کروڑوں ڈالر کے اسلحہ کی فروخت اس وقت
امریکہ کے قومی مفاد میں ہے یا نہیں۔